دبئی دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش رئیل اسٹیٹ منڈیوں میں سے ایک ہے، جہاں پاکستانی سرمایہ کار گزشتہ کئی برسوں سے غیر ملکی خریداروں میں سرفہرست ہیں۔ دبئی پاکستانیوں کے لیے ہمیشہ سے دوسرا گھر رہی ہے — جغرافیائی قربت، بڑی پاکستانی کمیونٹی، اور امریکی ڈالر سے منسلک مستحکم کرنسی کے باعث۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ملک میں جائیداد کی سست منڈی کے پیشِ نظر، پاکستانی سرمایہ کار دبئی کو ایک محفوظ اور منافع بخش متبادل سمجھتے ہیں۔
دبئی میں کرایے کے منافع (رینٹل ییلڈ) 10 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، جبکہ 2021 کے بعد پراپرٹی ویلیوز میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یو بی ایس گلوبل رئیل اسٹیٹ ببل انڈیکس 2025 کے مطابق، گزشتہ ایک سال میں دبئی میں گھروں کی قیمتوں میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو اسے میڈرڈ کے بعد دنیا کی دوسری تیز ترین بڑھتی ہوئی جائیداد کی منڈی بناتا ہے۔ تاہم، تمام شعبے یکساں کارکردگی نہیں دکھا رہے۔
اپارٹمنٹ سیکٹر میں بزنس بے، جے وی سی اور دبئی لینڈ میں نئی اسکیموں کا تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، مگر درمیانے درجے کے منصوبوں میں زیادہ فراہمی (اوور سپلائی) کے باعث دوبارہ فروخت کی قیمتوں اور کرایے کی آمدنی پر دباؤ برقرار ہے۔ ماہرین پاکستانی سرمایہ کاروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ معروف اور سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیویلپرز جیسے میراس، نخیل اور اعمار کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں، خصوصاً واٹر فرنٹ یا برانڈڈ رہائشی منصوبوں میں، جو تاریخی طور پر زیادہ مستحکم اور منافع بخش ثابت ہوئے ہیں۔
ولا اور ٹاؤن ہاؤسز دبئی کی سب سے مضبوط کارکردگی دکھانے والی کیٹیگری بن چکی ہیں۔ خاندانی نوعیت کے بڑے گھروں کی مانگ نے سپلائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس کے نتیجے میں پام جمیرا، دبئی ہلز اسٹیٹ اور ڈسٹرکٹ ون جیسے علاقوں میں ریکارڈ سیل دیکھنے میں آئی ہے۔ عربین رینچز اور تلال الغاف جیسے کمیونٹیز میں 6 فیصد سے زائد کرایہ منافع حاصل ہورہا ہے، جو پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے منافع اور سرمایہ میں اضافے دونوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
میراس کے دی ایکرز اور نَد الشیبا گارڈنز، نخیل کے پام جبل علی اور اعمار کے دی ویلی جیسے نئے منصوبے 2025–2026 کے دوران پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور ترقی یافتہ مواقع سمجھے جا رہے ہیں۔
دبئی کی کمرشل رئیل اسٹیٹ بھی غیر معمولی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ گریڈ اے آفس مارکیٹ میں 2021 سے اب تک 300 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کی بڑی وجہ بین الاقوامی کمپنیوں کا دبئی منتقلی اور علاقائی ہیڈکوارٹرز کا قیام ہے۔ ڈی آئی ایف سی اور بزنس بے میں آفس کرایے 500 درہم فی مربع فٹ سالانہ سے تجاوز کرچکے ہیں، جو اب بھی لندن اور سنگاپور جیسے عالمی شہروں کے مقابلے میں کافی کم ہیں — یہی وجہ ہے کہ دبئی اب ادارہ جاتی اور نجی سرمایہ کاروں کے لیے عالمی سطح پر ایک منفرد موقع بن چکا ہے۔
ایمبر ہومز رئیل اسٹیٹ — جو گزشتہ تین برسوں سے نخیل، میراس اور دبئی ہولڈنگ کی ٹاپ پلاٹینم ایجنسی کے طور پر تسلیم کی جا چکی ہے — پاکستانی سرمایہ کاروں کو دبئی کی بہترین سرمایہ کاری کے مواقع سے جوڑنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ امبرین قریشی اور سعد وقاص کی قیادت میں، ادارے نے اب تک 3 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی سیلز مکمل کی ہیں اور کئی الٹرا ہائی نیٹ ورتھ انفرادی سرمایہ کاروں کے پورٹ فولیوز کا انتظام کر رہا ہے۔
ایمبر ہومز رئیل اسٹیٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیلز اینڈ انویسٹمنٹ ابراہیم قریشی نے کہا:
“پاکستانی سرمایہ کار شفاف اور منافع بخش سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں — اور دبئی ان کے لیے بالکل یہی پیش کرتی ہے۔ ہماری ٹیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر کلائنٹ کو دبئی کے بہترین ڈیویلپرز کے ساتھ ولاز، ٹاؤن ہاؤسز اور گریڈ اے دفاتر میں محفوظ اور اعلیٰ معیار کی سرمایہ کاری ملے۔”