66

لاپتہ زاہد امین کے پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ کرنے سے متعلق رپورٹ طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ زاہد امین اور صادق امین کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران زاہد امین کے پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ کرنے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔

عدالتِ عالیہ میں 8 سال سے لاپتہ زاہد امین اور 1 سال سے لاپتہ صادق امین کی بازیابی کے کیس میں درخواست گزاروں کی جانب سے ایمان مزاری ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔

رجسٹرار لاپتہ افراد بازیابی کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے زاہد امین کو جبری گمشدہ ڈکلیئر کیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے جب کہہ دیا کہ یہ جبری گمشدگی ہے تو آپ نے پروڈکشن آرڈر کسے جاری کیے؟ کیا کمیشن صرف رسمی کارروائی کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرتا ہے؟ آپ پٹیشنرز کو متعلقہ معلومات کیوں نہیں دے رہے؟ آپ کو تو خود پٹیشنرز تک پہنچنا چاہے، کمیشن لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ ٹھیک طریقے سے پیش نہیں آ رہا، آپ ان کے گھروں تک جائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے رجسٹرار سے استفسار کیا کہ پروڈکشن آرڈر کب جاری ہوئے؟ تاریخ کیا ہے؟

درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ زاہد امین کا 14 ستمبر 2020ء کو پروڈکشن آرڈر جاری ہوا تھا۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ پروڈکشن آرڈر جاری کر کے بھول گئے؟ جنہیں جاری کیا، کیا انہوں نے انکار کر دیا؟

رجسٹرار لاپتہ افراد بازیابی کمیشن نے جواب دیا کہ کسی نے انکار نہیں کیا۔

عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ نے پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کا لکھا؟ آپ نے 14 ستمبر 2020ء کو پروڈکشن آرڈر جاری کیا، بادی النظر میں آپ کو کچھ نظر آیا ہو گا، اپنے آپ کو شرمندہ نہ کریں، کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا اس سے بڑا کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے؟ بادی النظر میں کمیشن اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہا، کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وضاحت کرے کہ کیوں کارآمد اور قابلِ ذکر ایکشن نظر نہیں آ رہا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن کو لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کو مکمل سہولت فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے استفسار کیا کہ کمیشن رپورٹ دے کہ پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ کرنے پر ذمے داروں کے خلاف کارروائی کے لیے کیوں نہیں لکھا؟ ریکارڈ سے لگتا ہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد کمیشن کی کارروائی بادی النظر میں رسمی ہے، ایک دہائی قبل تشکیل دیے گئے کمیشن نے جبری گمشدگی کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کو تجاویز کیوں نہیں دیں؟ یہ عدالت بار بار کہہ چکی ہے کہ جبری گمشدگی سنگین جرم اور آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ ہونے کے بعد ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ کبھی کمیشن نے کارروائی کا لکھا ہو، 2 سال پہلے پروڈکشن آرڈر جاری ہوا، کوئی وجہ نہیں کہ ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا نہ لکھا جائے، عدالت آنکھیں بند نہیں کر سکتی، پٹیشنرز شہری ہیں، کمیشن کی ڈیوٹی ہے کہ گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ تک خود پہنچے۔

عدالتِ عالیہ نے کیس کی مزید سماعت 4 جولائی تک ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں