83

پنجاب حکومت –بلدیاتی انتخابات اور اختیارات ؟ تحریر-میاں عصمت رمضان

پنجاب حکومت –بلدیاتی انتخابات اور اختیارات ؟
پنجاب کا نیا بلدیاتی نظام تیار کر لیا گیا ہے جس کے تحت صوبے میں جلد بلدیاتی انتخابات ہوں گے، ۔پنجاب گزشتہ چار برسوں سے بلدیاتی اداروں کے بغیر چل رہا ہے،یہ ایک اچھی خبر ہے کہ بالآخر اس حوالے سے ایک بلدیاتی نظام کی منظوری دے دی گئی ہے
بلدیاتی نظام کسی بھی جمہوری طرز عمل کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے اثرات ہمارے بلدیاتی اداروں پر بھی پڑے اور ملکی تاریخ کا آدھے سے زیادہ عرصہ یہ معطل رہے ۔ باقی حصہ تجربات کی نذر ہوگیا۔ جس سے آج خیبر سے کراچی تک کوئی شہر اور بستی ایسی دکھائی نہیں دیتی جسے مثالی نظام کا نمونہ بناکر پیش کیا جاسکے جبکہ صحت و صفائی ،فراہمی و نکاسئ آب ، پختہ گلیوں سڑکوں ، مراکز صحت، تعلیمی سہولتوں ،پبلک پارکوں، ٹرانسپورٹ، معیاری اور مقررہ قیمتوں پر اشیائے ضروریہ کی بلا تعطل ترسیل کو کامیاب بلدیاتی نظام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں کی خوشحالی کے پیچھے ان کا کامیاب بلدیاتی نظام کارفرما ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کا انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد سندھ کے4 اضلاع میں ہائیکورٹ کے حکم پر پولنگ کرائے گئے ہیں- جبکہ پنجاب میں نئی تاریخ کا تعین ہونے والا ہے ۔ صوبائی کابینہ نے جمعہ کے روز وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی صدارت میں اپنے اجلاس میں نئے بلدیاتی نظام کی منظوری دی ہے جس کے تحت ہر یونین کونسل کےلئے آئندہ مالی سال میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس نئے نظام کی بنیادی خصوصیات کے مطابق اس میں 14نئی میونسپل کارپوریشنیں ہوں گی،4015 یونین کونسلیں پنجاب بھر میں کام کریں گی، بلدیاتی سربراہوں کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو گا،پہلی بار دس صوبائی محکمے جن میں پرائمری ایجوکیشن، سوشل ویلفیئر، ٹرانسپورٹ، پرائمری ہیلتھ، فیملی پلاننگ، پبلک ہیلتھ، آرٹس اینڈ کلچر، سول ڈیفنس اور سیاحت شامل ہیں، ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نظام کو تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی مشاورت کے بعد بنایا گیا ہے اور اگر اسے واقعی تمام سٹیک ہولڈرز بشمول اپوزیشن کی حمایت حاصل ہے تو یہ ایک خوش آئند امر ہے۔اس نظام کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی نمائندگی کو دوگنا کر دیا گیا ہے،خواتین میں جس طرح سیاسی شعور بیدار ہوا ہے اور ان کے اندر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی جس روایت نے جنم لیا ہے،اُسے دیکھتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ بلدیاتی اداروں میں بھی خواتین کی نمائندگی بڑھائی جائے تاکہ اُن کے مسائل نچلی سطح پر حل ہو سکیں۔پنجاب حکومت نے خود بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔یونین کونسلز کو ارکان اسمبلی کی مداخلت کے بغیر ہر ماہ دس سے پندرہ لاکھ روپے دیئے جائیں گے تاکہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکیں یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اور اس سے بلدیاتی اداروں کے اعتماد اور کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔نوجوانوں اور خصوصی افراد کو بھی یونین کونسلز میں نمائندگی دی جائے گی تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ یقینی بنا سکیں۔ہر یونین کونسل کا وائس چیئرمین تحصیل کونسل کا رکن ہو گا، اس طرح یونین کونسل کے وہ مسائل جو تحصیل سے تعلق رکھتے ہیں انہیں حل کرانے میں مدد ملے گی۔ اس بلدیاتی نظام کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس میں لوکل گورنمنٹ کے سربراہوں کو خود مختار بنا دیا گیا ہے،اتنے اختیارات پہلے کسی نظام میں نہیں دیئے گئے جتنے اس نظام میں دیئے جا رہے ہیں۔اس نظام کے تحت ہر یونین کونسل، تحصیل کونسل، ضلع کونسل، ٹاؤن کمیٹی،کارپوریشن اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اپنی اپنی جگہ پر مکمل طور پر خود مختار ہوں گے، انہیں مالی خود مختاری بھی دے دی گئی ہے،اسی بلدیاتی نظام کے تحت صاف دیہات پروگرام بھی لایا جا رہا ہے جس کے ذریعے دیہات میں مستقل اور دیرپا صفائی کا نظام قائم کیا جائے گا۔نوجوانوں، خواتین، کسان ، اقلیت اور معذوروں کی نشستوں کو یونین کونسلوں کی سطح پر دوگنا کردیا گیا ہے- پولیس،ایڈمنسٹریشن اور دیگر سرکاری اداروں میں ایک مربوط ٹیم ورک پیدا کرنے کے لیے ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ میونسپل فورم بنائے جائیں گے۔ مقامی حکومتوں کے سربراہ اپنی کابینہ تشکیل دیں گے جو ٹیکنو کریٹس اور ماہرین پر مشتمل ہو گی اور مختلف معاملات پر رہنمائی فراہم کرے گی۔اس بلدیاتی نظام کے بارے میں تحریک انصاف کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اپنے پونے چار سالہ دور میں پنجاب کو کوئی بلدیاتی نظام نہیں دے سکی۔ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اُس نے پنجاب میں حکومتی بنائی تو اچھے بھلے چلتے بلدیاتی ادارے یہ کہہ کر توڑ دیئے کہ جلد ہی نئے نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں گے،اس کے بعد کئی بار نیا نظام بنانے کی خبریں سامنے آئیں لیکن انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ صاف لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات سے پہلو بچانا چاہتی ہے کیونکہ پنجاب کے بلدیاتی نظام پر مسلم لیگ(ن) کی گہری گرفت تھی اور جس وقت بلدیاتی ادارے توڑے گئے90فصد بلدیاتی نمائندوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔یہ معاملہ عدالتوں میں گیا اور بالآخر سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا تاہم اُس کے بعد اُن کی آئینی مدت بہت کم رہ گئی تھی، اُس وقت کی پنجاب حکومت نے انہیں بحال تو کر دیا مگر اختیارات سے محروم رکھا۔ اب پنجاب میں ایک نیا بلدیاتی نظام آ گیا ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ جلد ہی نئے انتخابات ہوں گے اور صوبے کے بلدیاتی ادارے اپنے منتخب نمائندوں کی سربراہی میں کام کرنے لگیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا کوئی جمہوری نظام بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا کیونکہ جب تک عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل نہیں ہوتے،انہیں جمہوریت کا احساس ہی نہیں ہو گا۔ہمارا مسئلہ یہ رہا ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کی نظر ہمیشہ ایسے کاموں پر ہوتی ہے جو یونین کونسلز اور میونسپل کارپوریشنوں کے اختیارت میں آتے ہیں،سڑکوں،گلیوں اور نالیوں کی تعمیر پر سیاست کرنے والے یہ کبھی نہیں چاہتے کہ ایک مضبوط بلدیاتی نظام معرض وجود میں آئے۔یہی وجہ ہے کہ میونسپل اداروں پر ہمیشہ صوبائی حکومتوں اور ارکان اسمبلی کا غلبہ رہا ہے جس کے باعث ان اداروں کی کارکردگی کبھی بھی اُس معیار کی نہیں رہی جیسی ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں نظر آتی ہے۔ صوبائی حکومتیں انتظامی افسروں کے ذریعے بلدیاتی سربراہوں کے اختیارات میں مداخلت کرتی رہی ہیں کیونکہ مالی اختیارات پر ہمیشہ انتظامی افسروں کا کنٹرول رہا۔اب اس نئے بلدیاتی نظام میں ان خرابیوں پر قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے اور یونین کونسل سے لے کر ضلع کونسل تک ایک بااختیار نظام کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے۔پنجاب حکومت کا یہ اچھا فیصلہ ہے کہ اس نئے بلدیاتی نظام کی تفصیلات کو ویب سائٹ پر رکھا جا رہا ہے تاکہ عوام کو اس سے آگاہی ہو سکے۔ملک کے دیگر تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے،سندھ میں بھی ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات روکنے کے حوالے سے تمام درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔بلوچستان میں دوسرے مرحلے کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات ہو چکے ہیں،صرف پنجاب ہی وہ صوبہ ہے جہاں یہ معاملہ کسی نئے نظام کے انتظار میں رکا ہوا تھا،
میرا اب یہ سوال ہے کہ اب جبکہ بلدیاتی نظام کو حتمی شکل دے دی گئی ہے – پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بنیادی جمہوریت کے ثمرات سے بہر مند ہونے کا موقع ملے۔ آئندہ مالی سال یکم جولائی کو شروع ہونے کو ہے جس کےلئے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے ۔ مزید برآں چیک و بیلنس کے نظام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جانا چاہئے تاکہ عوام الناس تک بلدیاتی اداروں کے ثمرات بلا حدود و قیود بروقت پہنچ سکیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں