89

چیف جسٹس اور سینئر ججوں کی کانفرنس کا اختتام ایک مفرور کی تقریر سے کرانا ججوں اور عدلیہ کی توہین کے سوا کچھ نہیں-فواد چوہدری

لاہور(میاں عصمت) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خطاب پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانفرنس شرکت سے معذرت کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس اور سینئر ججوں کی کانفرنس کا اختتام ایک مفرور کی تقریر سے کرانا ججوں اور عدلیہ کی توہین کے سوا کچھ نہیں، نواز شریف نے وکلا تحریک کیلئے جسٹس خواجہ شریف کو تھیلوں میں پیسے بھجوائے اور کرد صاحب کے لیکچر سنیں، جبکہ وزیراعظم مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بیان میں کہا ہے کہ معزز ججز کو سیاسی اجتماعات سے دور رہنا چاہیے۔ جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوال کرنے والے کی زبان بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے، ملک، آئین کی خاطر سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق ،سول سوسائٹی،صحافتی تنظیمیں متحد ہوکر تحریک چلائیں، فیصلہ کن موڑ ہے، ملک کو کھائی سے نکالیں، مزید تاخیر کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کریگی، شاہد خاقان عباسی نے کہا نیب اور احتساب کا مقصد پولیٹیکل انجینئرنگ اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرنا ہے ،

اس نے ملک کو کیا دیا، قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اگر فوج، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں ہمت نہیں کریں گی تو کچھ اچھا نہیں ہوگا ، پی ٹی آئی کے سینیٹرعلی ظفر نے کہا کہمفروضہ ہےکہ نیب سب کا احتساب نہیں کر رہا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘ کے اختتامی سیشن کے دوران ’’پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے درپیش مسائل‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے سلیمہ ہاشمی، عبدالمالک بلوچ، تاج حیدر، افراسیاب خٹک، بابا جان، ایاز لطیف پلیجو سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق، سول سوسائٹی اور صحافی تنظیموں کے رہنمائوں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان اور آئین کی خاطر ایک پلیٹ فارم ہر متحد ہو جائیں اور قومی تحریک شروع کریں،اس کیلئے فوری حکمت عملی مرتب کی جائے اور عملی جد وجہد کا راستہ اختیار کیا جائے ورنہ بہت تاخیر ہو جائیگی، ملک کو گہری کھائی سے نکالیں ایسا نہ کیا تو ہماری بقا ناممکن ہو جائیگی اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کریگی۔ نواز شریف نے کہا کہ ملک میں آئین کی بالا دستی اور قانون کی بحال اور عدلیہ کی آزادی کی ضرورت ہے ، ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے، 74 برسوں بعد قوم میں دوبارہ مایوسی پھیل رہی ہے، قوم کو جواب درکار ہے کہ سوال کرنے والے کی زبان بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہو نگے۔ لائیو ویڈیو خطاب کے دوران انٹر نیٹ میں خلل کے باعث نواز شریف نے ٹیلی فونک خطاب کیا ۔انہوں نے کہا آج میری تقریر کے دوران پھر تاریں کھینچ کر زبان بند کرنے کی کوشش کی گئی، سوال کرنے والے سے سوال کا حق چھیننے سے مسائل ختم ہو جائینگے؟سیاسی مخالفین اور سیاسی رہنمائوں کو غائب کر دیا جاتا ہے ، اور انھیں قید کر دیا جاتا ہے، پروگرام اور کالم بند کر دئیے جاتے ہیں، ایسے سیاہ اقدامات کا مقصد زبان بند کرنا ہے، قانون ٹوٹتے ہیں، عدالتیں ٹوٹتی ہیں، من پسند فیصلے مسلط کر دئیے جاتے ہیں، ریاست کے اوپر ریاست بنا دی گئی ہے، آر ٹی اے بند کر دیا جاتا ہے، ووٹ چوری ہوتا ہے، منتخب حکومت کیخلاف دھرنے کرائے جاتے ہیں، حکومتوں کو بنایا جاتا ہے اور گرایا جاتا ہے، پارلیمنٹ میں چند منٹوں میں درجنوں قوانین بلڈوز کر دیئے جاتے ہیں، یہ وہ اقدام ہیں جو ہمارے زوال کا باعث ہیں، دنیا ہم پر ہنستی ہے دنیا ہم پر پابندیاں لگاتی ہے، ہم پر پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں؟سچ بولنے والے کی زبان بند کر دی جاتی ہے، ججوں پر دبائو ڈال کر سیاسی مخالفین کیخلاف بیان لئے جاتے ہیں، کبھی عدالتوں نے پارلیمنٹ توڑنے والوں کو سزائیں دیں؟ہمیں اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، طریقہ کار واضح کیا جائے کہ ملک کو چلانا کس کی ذمہ داری ہے اور کو ذمہ داری نبھانی ہے، ڈکٹیٹروں نے کہا کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے جسکو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے، اس قوم کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ دائروں کا سفر جاری رکھنا ہے، اندھے، گونگے اور بہرے بن کر رہنا ہے، آئین دو ٹوک بات کر تا ہے، وکلا برادری، جمہوریت پسند، صحافی،سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ، مہنگائی ، بیروزگاری معاشی تباہی سے نجات دلا کر پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دئیے جائیں، موجودہ صورتحال پکار پکار کر اصلاح احوال کی دہائیاں دے رہی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کی خاطر ، آئین کی خاطر، جمہوریت کی خاطرقانون کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔ قبل ازیں نوازشریف نے عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ عاصمہ جہانگیر ایک تحریک کا نام تھیں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ کی کامیابی حق گوئی کی فتح ہے، احسن بھون کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دیتا ہوں، عاصمہ جہانگیر ظلم اور زیادتی کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں، وہ عدل و انصاف، سچ اور حق کی علامت تھیں، وہ ایک بہادر خاتون تھیں، جنھوں نے آمریت کے اندھیروں میں عدلیہ کی آزادی اور جمہوری قوتوں کیلئے توانا آواز بلند کی، گھٹن کے اس دور میں عاصمہ جہانگیر کی اشد ضرورت ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے روز ’’احتساب یا انتقام‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیشن سے خطابات میں مقررین نے کہا ہےکہ پاکستان میں احتساب ایک متنازع ایشو بن چکا ہے۔ کرپشن ایک ایک ایشو ہے جسے سب کو ماننا ہوگا لیکن احتساب کے نام پر کسی سے انتقام نہیں لینا چاہیے۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت یا پارلیمان چاہے تو جلدی سے جلدی قوانین میں ترامیم کرسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے ادارے کام نہیں کر رہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حیدر رسول مرزا نے کہا کہ احتساب کی بات کرنے سے پہلے اس کی تاریخ دیکھنا پڑیگی اور 1997 کے احتساب ایکٹ پر بھی غور کرنا پڑیگا۔ نیب کو ہر حکومت دوسروں کے احتساب کیلئے استعمال کرتی ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور انصاف ہوتا دکھائی دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کو نیب کیسوں میں ضمانت تو مل گئی لیکن عدالتوں کی طرف سے وہ کیس ختم نہیں کئےگئے، احتساب بیورو کے قوانین کا ازسرنو جائزہ لینا پڑیگا۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جہاں تک نیب کا تعلق ہے تو احتساب دراصل ایوب خان دور سے شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 12 کہتا ہے کہ اس وقت تک کوئی جرم جرم نہیں جب وہ کیا گیا تو اس وقت وہ جرم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس نے نئے جرائم بنا لئے ہیں اور کرپشن کے جرائم کی سزائیں بڑھا دی ہیں جو آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے ایڈیٹر انچیف نے اس کیس کی سزا بھگتی جو نیب آرڈیننس آنے سے 15 سال پہلے بنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسفند یار ولی کیس بھی ایک ایک حیران کن چیز ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ پاکستانی عوام فوجی حکومت چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی ظفر نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ احتساب ٹارگٹ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں چیزوں کا بیلنس کرنا ہوگا کیونکہ چوری کا دفاع اس طرح کیا جارہا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ زیادتی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ریوالونگ ڈور پالیسی رہی ہے دو پارٹیاں ایک دوسرے کے گلے کاٹتیں رہیں، دو پارٹیوں نے لندن میں معاہدہ کیا کہ اب ایک دوسرے کو انتقام کا نشانہ نہیں بنائینگے اور آزاد چیئرمین نیب ہوگا لیکن مشرف کے جانے کے بعد نیب قانون میں پھر ترمیم کی گئی جس میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) سے کہا آئیں اور نیب قانون کو شفاف بنائیں لیکن انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کیونکہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ لوگ نیب سے نہیں ڈرتے اس بات سے ڈرتے ہیں کہ چوری پکڑی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب میں اسٹرکچرل خامیاں ہیں اس میں پراسیکیوشن اور انوسٹی گیشن کو علیحدہ ہونا چاہیے۔ سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم سیاست دانوں اور ججوں سے مطالبہ کرتے ہیں تو کیا انہیں کیا ہمارا کوئی خوف ہے کہ جائز مطالبات نہ ماننے پر ہم ان کیخلاف ہوجائینگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ فوج، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں ہمت نہیں کریں گی تو کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ احتساب اور انتقام کے حوالے سے بہت سی چیزیں غیر واضح ہیں۔ عدلیہ جو کہتی ہے وہ انکے فیصلوں میں نظر نہیں آتا، میں تین سال نیب جیل میں رہا لیکن اسکا کوئی دکھ نہیں، پھر بھی دو سوال ذہن میں بار بار آتے ہیں کہ احتساب کا کیا مقصد ہے اور اس نے ملک کو کیا دیا۔ نیب چیئرمین بتاتے کہ سیاستدانوں سے کتنے پیسے ریکور کئے ہیں، جن کیسوں میں نواز شریف کو سزا ہوئی کیا دنیا کے سامنے ان کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی تقریر کے دوران انٹرنیٹ میں رخنہ ڈالا گیا، یہ تکنیکی خرابی نہیں بلکہ ان لوگوں کی کارروائی ہے جو اظہار رائے پرپابندی لگانا چاہتے ہیں جسکی شدید مذمت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر قوم کی آواز تھی، انکی بہت کمی محسوس ہو رہی ہے، پہلے پارلیمان کو 58/2بی کے ذریعے توڑ کر منتخب وزرائے اعظم کو بھیج دیا جاتا تھا، 18ویں ترمیم کے ذریعے پی سی او ججوں اور 58/2بی کاراستہ بند کر دیا گیا، اب غیر جمہوری قوتوں کو خطرہ ہے لہٰذا عدلیہ کو استعمال کر کے پہلے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا، دوسرے وزیر اعظم کو فارغ کرنا چاہتے تھے لیکن انکی مدت مکمل ہو گئی، نواز شریف حکومت کیخلاف بھی دھرنے دئیے گئے اور بعد میں انھیں گھر بھیج دیا گیا، عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی کر کے منتخب حکومتوں کے خلاف استعمال کیاجا رہا ہے، جو پارلیمنٹ، صحافت، سول سوسائٹی کے لئے نیا چیلنج ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون ایڈووکیٹ نے اختتامی خطاب میں کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے شخصی آزادیوں، اظہار رائے، معیشت کی بحالی اور ملکی بقاکیلئے اٹھ کھڑا کرنا ہو گا، سروں پر لوہے کی ٹوپیاں پہنا دی گئی ہیں تاکہ ذہنی نشوونما نہ ہو ان زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھنا ہو گا، ملک میں جمہوریت کیلئے تمام طبقوں کو تبدیلی کی بات کرنا ہو گی۔دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کو مشورہ ہے وہ غیر جانبدار رہے، سپریم کورٹ بار کی غیر جانبداری سے ہی وکلا کا تعاون ممکن ہوگا۔فواد چوہدری نے ایک صحافی کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت کے بڑے مقدموں کی فہرست دیکھیں تو ہر کیس میں حامد خان اور ایک دو اور وکیل ہیں، ان لوگوں نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر اتنا مال کمایا کہ اگلے پچھلے پر ہو گئے، نواز شریف نے وکلاء تحریک کیلئے جسٹس خواجہ شریف کو تھیلوں میں پیسے بھجوائے، اس حوالے سے نامور وکیل علی احمد کرد کے لیکچر سن لیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ معزز ججز کو سیاسی اجتماعات سے دور رہنا چاہیے۔ایک بیان میں شہزاد اکبر نے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تعزیتی کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خطاب کے حوالے سے ردِ عمل دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ معزز ججز کو ایسے سیاسی اجتماعات سے دور رہنا چاہیے، چیف جسٹس کے بعد مفرور شخص کا خطاب رکھا گیا۔وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ نواز شریف کا خطاب رکھنے پر کانفرنس کے منتظمین کی غیر جانبداری پر سنجیدہ شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں