57

مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے: عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ مفروضے پر نہیں جا سکتے، نیب دستاویز سے نوازشریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرے، مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے۔
مریم نواز اور کپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت مریم نواز عدالت میں پیش ہوئیں، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کے ہمراہ نیب کی پراسیکیوشن ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر نہیں عدم حاضری پر خارج کی گئی تھی، مگر مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے، انہوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں، نیب کو اس کا دفاع کرنا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب کہتا ہے کہ نوازشریف نے 1993ء میں اثاثے خریدے اور چھپائے، پھر شواہد سے ہی ثابت کرنا ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد کی معاونت کیسے کی؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم وہ ٹریک کلیئر کر رہے ہیں جس پر آپ نے آگے جانا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے مریم نواز کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ امجد پرویز صاحب! آپ نے دلائل مکمل کر لیے تھے، اب نیب کی باری ہے،جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر عثمان چیمہ نے دلائل دیے۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ عدالت نے لکھا ہے کہ نواز شریف کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا تھا، عدالت نے لکھا کہ مسلسل عدم حاضری پر عدالت کے پاس اپیل خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عدالت نے لکھا تھا کہ فیئر ٹرائل کا موقع ملنے کے بعد نواز شریف کو سزا سنائی گئی، مرکزی ملزم اب نہ عدالت کے سامنے ہے اور نہ ان کی اپیل موجود ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ آگے بھی پڑھ لیں کہ کیا لکھا ہے۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق وہ سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل ہمارے سامنے نہیں تو یہ مطلب نہیں کہ ان پر فردِ جرم ٹھیک ثابت ہو گئی، نواز شریف کی اپیل میرٹ پر نہیں عدم حاضری پر خارج کی گئی تھی۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر یہ کیسز بنائے گئے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے تو ٹرائل پروسیڈنگ کو دیکھنا ہے، سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ریفرنس دائر اور ٹرائل ہوا، ریفرنس اپنی اسٹرینتھ پر چلنا ہے، اس اپیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں