20

تلخیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے پاکستان آئیڈیل کیوں نہیں رہا؟ تحریر: علی احمد ڈھلوں

امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) کے پاکستان میں اپنی پیدوار اور تجارتی سرگرمیاں بند کرنے کے اعلان کے بعد آج کل ہمارے ہاں یہ بحث گرماگرم انداز میں جاری ہے کہ پاکستان سے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جن میں ایلی لِلی، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر، کریم، ٹیلی نار، ٹوٹل ، فائزر، سادہ پے، ائیر لفٹ، ایس ڈبلیو ای ایل اور یاماہانمایاں ہیں کا انخلاءکیوں جاری ہے؟ حکومتی ماہرین تو یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں کہ یہ کمپنیوں کی اپنی پالیسی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ زیادہ توجہ کس پراڈکٹ کی جانب مبذول کیے ہوئے ہیں،،، کچھ کا کہنا ہوتا ہے کہ کئی کمپنیاں اس لیے بھی بند ہو رہی ہیں، کہ اُن کی پراڈکٹس اب مقابلے سے کہیں پیچھے رہ گئی ہے،،، جیسے یاماہا وغیرہ ۔ جبکہ دوسری جانب ان کمپنیوں میں کام کرنے والوں اور دیگر ”آزاد “ ماہرین سے اگر اس حوالے سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہاں غیر ملکی کمپنیوں کے کاروبار ختم کی سب سے بڑی وجہ آزاد کاروباری ماحول کا بحران ہے،،، جبکہ دوسری بڑی وجہ ملک میں ڈالر کی قلت ہے،،، اس کے ساتھ تیسری بڑی وجہ بلند ٹیکس اور کمزور روپیہ بھی کاروبار ختم کرنے کے اسباب میں شامل ہے،،، ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے،،، کہ جتنی ساز گار کاروباری ماحول کے لیے ہونی چاہیے۔ پھر یہاں سسٹم نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے،،، اس کا اندازہ آپ یہیں سے لگا لیں کہ حال ہی میں ایک بینر لگے ریسٹورنٹ کی وائرل تصویر یقینا آپ کی نظر سے گزری ہوگی ،،، جس پر تحریر تھا کہ ”سسٹم کی بھتہ خوری کے خلاف ریسٹورنٹ بند ہے“ یہ کیفے گلستان جوہر کا ہے،،، مطلب! جب ایک عام ریسٹورنٹ کا یہ حال ہے تو پھر بتائیے کہ غیر ملکیوں کا یہاں کیا حال ہوتا ہوگا۔ پھر 18سو مقامی ٹیکسٹائل یونٹ بند ہوگئے، تو غیر ملکی کمپنیوں پر اس کا اثر نہیں پڑتا ہوگا؟ اورپھر جو یہ کمپنیاں بند ہوئی ہیں، ان کے مزید درجنوں یونٹس ہوتے ہیں،،، جیسے پی اینڈ جی کو دیکھ لیں،،، اس کی بیسیوں پروڈکٹس تھیں جن میں صابن شیمپو سے لے کر کھانے پینے کی اشیاءتک سبھی کی یہاں پراڈکشن ہو رہی تھی، پھر کیا یہاں چین کی کئی کمپنیاں صرف اس لیے اپنے کاروبار کو بند نہیں کر رہیں کہ یہاں سیکیورٹی کی صورتحال مناسب نہیں،،،
ہمیں ہر حال میں جب ملک کا نقصان ہو رہا ہو تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ روٹین کی بات ہے،،، یا یہ کمپنیاں شاید اپنے مالی معاملات کی وجہ سے چھوڑ کر جا رہی ہیں،،، بلکہ ہمیں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بات کرنی چاہیے،،، اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ایک کمپنی بند ہونے کا مطلب ہے،،، ہزاروں پاکستانی بے روز گار،،، لاکھوں ڈالر کا ماہانہ نقصان جو وہ ٹیکس کی صورت میں پاکستان کو دے رہے تھے،،، اور ساتھ آپ کی ساکھ کی خرابی ،،،، جیسے چند ماہ قبل پاکستان میں مائیکرو سافٹ نے اپنا دفتر بند کر دیا تھا۔ بجائے اسکے کہ اس کی وجوہات تلاش کی جاتیں، اسکے عواقب پر غور کیا جاتا، مستقبل میں اس قسم کے امکانات کو روکنے کی سعی کی جاتی، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے اسکی پیش بندی کی جاتی اور آئندہ کیلئے اس کا تدارک کیا جاتا،،، ہوا یہ ہے کہ پاکستان میں مائیکرو سافٹ کی جانب سے دفتر بند کرنے اور آپریشن ختم کرنے کے احمقانہ جواز تراشے جا تے رہے اور عالمی سطح کے اتنے بڑے ادارے کی جانب سے اٹھائے جانے والے قدم کا جائزہ لینے کے بجائے اس بندش کو عالمی سطح کے معاملات سے جوڑ کر اپنی غلطیوں کے اعتراف کے بجائے سارا ملبہ اٹھا کر پوری دنیا کے سر پر ڈال دیا گیا۔اُس وقت وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے مائیکرو سافٹ کی جانب سے پاکستان میں اپنا دفتر مکمل طور پر بند کرنے کے جواز میں فرمایا ہے کہ مائیکرو سافٹ نے صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ڈاﺅن سائزنگ کی ہے۔ بندہ پوچھے کہ ڈاﺅن سائزنگ اور کسی دفتر کی مکمل بندش میں کوئی فرق نہیں؟ ڈاﺅن سائزنگ کا مطلب مکمل بندش کب سے ہو گیا ہے؟ اور بھلا صرف پانچ بندوں پر مشتمل دفتر میں مزید کیا ڈاﺅن سائزنگ ہو سکتی تھی؟
کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا کہ 25کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کو بھلا کوئی تجارتی کمپنی یا کاروباری ادارہ فالتو میں کیوں چھوڑے گا؟ جب ہمارے وزیر پٹرولیم مصدق ملک شیل کے پاکستان چھوڑنے کے حوالے سے خود کہہ رہے ہیں کہ بڑی کمپنیاں پاکستان کو چھوڑ رہی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کاروبار بہت مشکل ہے، کمپنیاں دنیا میں آسان کاروبار کی جانب جارہی ہیں۔ اس وقت صرف چائنیز ہیں جو ہمارے پاس رہے ہیں۔موصوف فرماتے ہیں کہ سیکیورٹی کے مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے بھی کمپنیاں یہاں سے جارہی ہے، کمپنیوں کو سیکیورٹی اخراجات بہت زیادہ پڑتے ہیں، ڈیجیٹائزیشن کی طرف جارہے ہیں جس سے مسائل حل ہوجائیں گے۔اگر تمام حالات ٹھیک ہیں تو کوئی وفاقی وزیر ایسا بیان کیوں دے گا؟ اس لیے حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ یہاں سب اچھا نہیں ہے،،، تجارتی رشتوں میں بندھی ہوئی دنیا میں جہاں ملکوں کے باہمی تعلقات مارکیٹ اور خریداروں کی تعداد سے جڑے ہوئے ہوں، کوئی بھی کاروباری یا تجارتی ادارہ بلاوجہ ایسا کیوں کرے گا؟
بہرکیف پی اینڈ جی ، پٹرول کی سیلز اور مارکیٹنگ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت درجنوں بین الاقوامی کاروباری اور تجارتی کمپنیاں گزشتہ چند سال کے دوران اپنا کاروبار اور سرمایہ سمیٹ کر پاکستان سے جا چکی ہیں۔ یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ محض ایک کالم میں اسے سمیٹنا ممکن نہیں۔ اگر ہم صرف اس ملک میں گزشتہ کئی عشروں سے پیداواری یونٹ اور رسد کے حوالے سے کام کرنے والی دوا ساز کمپنیوں یعنی فارماسوٹیکل انڈسٹری کی ہی بات کریں تو نہایت ہوشربا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی درجنوں ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل کمپنیوں نے اس ملک میں کام شروع کر دیا۔ گو کہ اس سارے عمل کے دوران ان کمپنیوں میں سے بیشتر نے وہ تقاضے بہرحال پورے نہ کیے جو انہیں کرنے چاہیے تھے جن میں خام مال کی مقامی سطح پر تیاری بھی شامل تھی مگر اس میں ان کمپنیوں کی بدنیتی اور نالائقی سے کہیں زیادہ حصہ ملک کی افسر شاہی‘ متعلقہ وزارت اور ریگولیٹری باڈی کا ہے جنہوں نے معاہدے کرتے وقت ملکی مفاد سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور ایسے واہیات معاہدے کیے جن میں ملک اور اس ملک کے عوام کو وہ دور رس فوائد حاصل نہ ہو سکے جن سے انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے دیگر ممالک مستفید ہوئے۔ ظاہر ہے جب ریگولیٹر ہی نہ پوچھے تو مینوفیکچرر کیوں فکر مند ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود کام بہرحال چلتا رہا اور لوگوں کو بہتر کوالٹی کیساتھ ساتھ ایسی جان بچانے والی ادویات بھی ملتی رہیں جو کئی امراض کیلئے اس ملک میں میسر واحد ذریعہ تھیں۔ ان کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کرنے‘ اپنا مینوفیکچرنگ یونٹ اور آپریشن فروخت کر دینے سے جہاں ادویات کی کوالٹی میں بہت زیادہ تنزلی ہوئی وہیں کئی ادویات کا لائسنس نئے خریداروں کو دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
ادویات بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے جب پاکستان میں اپنا آپریشن بند کیا تو اس کے نتیجے میں شدید ڈپریشن کی دوا Frisiumبند ہو گئی۔ 100گولیوں پر مشتمل اس دوا کا ڈبہ جو پہلے 540روپے میں دستیاب تھا، آج کل27ہزارروپے میں مل رہا ہے۔ جی ہاں! 27 ہزارمیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں اس دوا کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دنیا کی چند بڑی ادویہ ساز کمپنیوں میں سے ایک فائزر اس ملک سے اپنا کاروبار سمیٹ کر رخصت ہوئی تو جاتے جاتے Xanax کی رجسٹریشن بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ ایک ملی گرام کی گولیوں کا ڈبہ جس کی قیمت کبھی 550روپے تھی اب دس ہزار روپے میں بھی سفارشوں اور حوالوں سے مل رہا ہے۔ اس قسم کی جان بچانے والی اور دیگر نہایت ہی پیچیدہ بیماریوں کیلئے میسر ادویات کی ایسی قلت ہے کہ جن پر گزر رہی ہے صرف وہی جانتے ہیں۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی مرگی کے علاج کی نہایت ہی سستی دوا Tegral بناتی تھی۔ یہ دوا مریض کو ساری عمر کھانا پڑتی ہے۔ اس دوا کا 200mg کا پچاس گولیوں پر مشتمل ڈبہ صرف ایک سو دس روپے میں مل رہا تھا‘ اب نایاب ہے۔ ڈاکٹر اس کی جگہ مہنگی دوا لکھ کر اپنا کمیشن کھرا کر رہے ہیں اور مریض مجبور ہے۔ کمپنیوں کے بند ہونے، آپریشن فروخت کرنے اور بھاگ جانے کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ لکھیں تو ریاستی نااہلی‘ حکومتی بدانتظامی‘ سیاسی بے اعتدالی‘ ان کمپنیوں کی مقامی انتظامیہ کی بدنیتی‘ ریگولیٹری باڈی کی بے ایمانی اور بیورو کریسی کی کرپشن کی اس داستان پر بندہ شرم سے ڈوب کر مر جائے۔ چلیں مان لیا کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چور تھیں‘ ڈاکو تھیں‘ لٹیری تھیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کمپنیاں اپنی لوٹ مار‘ کرپشن (اگر وہ واقعتاً کر رہی تھیں) اور منافع کی بہتی گنگا چھوڑ کر اس ملک سے کیوں بھاگ گئیں؟ اور جو باقی ہیں وہ تیار بیٹھی ہیں۔ فی الحال صرف چند کمپنیوں کے نام درج ذیل ہیں‘ جو اپنا چلتا کاروبار چھوڑ کر اس ملک سے رخصت ہو گئی ہیں لیوفارما‘ وائیتھ‘ بائیر‘ روش‘ سولو‘ سیبا وڑن‘ لِلی‘ مرک‘ ایوانٹس‘ آئی سی آئی‘ فائزر‘ جانسن‘ ایم ایس ڈی‘ سینڈوز‘ جی ایس کے اور ایسٹرازینیکا کے علاوہ اور بھی کئی کمپنیاں ہیں جن کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا۔یاد رہے کہ ساری کمپنیاں صرف پاکستان سے بھاگی ہیں جبکہ باقی ساری دنیا میں کاروبار اور پروڈکشن کر رہی ہیں۔ سرکار سے پہلے سرمایہ کاری کرنے والے سنبھالے نہیں جا رہے اور دعوے ہیں کہ وہ دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان لا رہے ہیں۔ پاکستان میں تو اب خود پاکستانی سرمایہ کاری پر تیار نہیں‘ باہر سے کون بیوقوف آئے گا؟
اور پھر ہمیں یاد رہے کہ ساری کمپنیاں صرف پاکستان سے بھاگی ہیں جبکہ باقی ساری دنیا میں کاروبار اور پروڈکشن کر رہی ہیں۔ سرکار سے پہلے سرمایہ کاری کرنے والے سنبھالے نہیں جا رہے اور دعوے ہیں کہ وہ دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان لا رہے ہیں۔ پاکستان میں تو اب خود پاکستانی سرمایہ کاری پر تیار نہیں‘ باہر سے کون بیوقوف آئے گا؟وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں سسٹم کی تباہی ہے،،، اور یہ سسٹم اُسی وقت ٹھیک ہو سکتا ہے جب اوپر سے نیچے تک تمام ادارے ملک کا سوچیں اور ملک کے لیے کام کریں ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہاں ڈالر کی قلت آج سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی! اور ہمارے پاس ادائیگیوں کے لیے پیسے نہیں بچیں گے،،، جیسا کہ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں