اگر تم وہاں برائی دیکھو جہاں تم نے اچھائی بوئی تھی،
تو حیران مت ہونا بعض زمینیں کاشت کے قابل نہیں ہوتیں۔
یہ جملہ فقط ایک فقرہ نہیں، بلکہ زندگی کا وہ سبق ہے جو اکثر ہمیں بہت کچھ سکھا کر جاتا ہے دھیرے دھیرے، زخم دے کر، ہوش میں لا کر۔
ہم اکثر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو جذبات، جو خلوص، جو وقت ہم کسی کو دے رہے ہیں، وہ ضرور ایک دن لوٹ کر آئے گا۔
ہم رشتے نبھاتے ہیں، دل سے۔
احسان کرتے ہیں، بغیر کسی غرض کے۔
مدد کرتے ہیں، خاموشی سے۔
اور پھر ایک دن… بدلے میں ملتی ہے نیت پر شک، اخلاص پر طنز، اور تعلق پر وار۔
دل زخمی ہوتا ہے۔ سوال اٹھتے ہیں:
“میں نے کیا غلط کیا؟”
“میری محبت میں کمی کہاں رہ گئی تھی؟”
“میں نے تو ان کا ہمیشہ بھلا چاہا، پھر یہ دھوکہ کیوں؟”
یہاں ایک سچ خاموشی سے سر اٹھاتا ہے
تم نے بیج ٹھیک بویا تھا، مگر زمین غلط چُنی تھی۔
دنیا میں سب انسان برابر نہیں ہوتے۔
نہ سب دل نرم ہوتے ہیں، نہ سب ذہن صاف۔
کچھ لوگ صرف لینے کے عادی ہوتے ہیں، دینا ان کے فطرت میں نہیں ہوتا۔
کچھ صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں، چاہے اس کے لیے کسی کا بھروسہ توڑنا پڑے یا کسی کی عزت۔
ایسے لوگ تمہاری نیکی کو کمزوری سمجھتے ہیں، تمہارے صبر کو بےوقوفی، اور تمہاری خاموشی کو جرم۔
تم اگر ایسے لوگوں سے خیر کی امید رکھو، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے پتھریلی زمین پر بیج بو دینا، اور فصل کی امید لگانا۔
نہیں…
ہر زمین، ہر دل، ہر انسان، تمہاری نیکی کے قابل نہیں ہوتا۔
مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی چھوڑ دی جائے؟
بالکل نہیں۔
نیکی تمہاری پہچان ہے، ان کی نہیں۔
سچائی تمہاری فطرت ہے، ان کی نہیں۔
تمہیں جو بہتر لگتا ہے، وہ کرتے رہو لیکن آنکھیں کھلی رکھو۔
سیکھو، پہچانو، اور سمجھو
کب، کہاں، اور کس کے ساتھ تمہارا خلوص واقعی کسی کام آ سکتا ہے۔
ہر دروازے پر خیر کی دستک دینا ضروری نہیں۔
کچھ دروازے صرف بند ہی رہنے چاہئیں۔
یاد رکھو،
جو زمین کاشت کے قابل نہیں،
اس پر وقت ضائع کرنا، صرف اپنے اندر کی زرخیز زمین کو برباد کرنا ہے۔
اپنی نیکی کو محفوظ رکھو،
اسے ضائع مت ہونے دو
صرف اس زمین پر بوؤ، جہاں وہ واقعی پھل دے سکے۔تم نے خلوص سے بیج بوئے،
محبت، وفا، اور خیر خواہی کے۔
تم نے سیرابی کی، اپنے وقت سے، اپنی توانائی سے،
اپنی دعاؤں اور امیدوں سے۔
لیکن پھر بھی، وہاں کانٹے اگ آئے۔
جہاں پھولوں کی امید تھی، زخم ملے۔
جہاں دعائیں دی جانی تھیں، وہاں طعنے سننے کو ملے۔
تو کیا یہ تمہاری خطا ہے؟
نہیں۔
یہ اس زمین کی فطرت ہے جس پر تم نے بیج بوئے۔
ہر زمین زرخیز نہیں ہوتی۔
کچھ دل بنجر ہوتے ہیں۔
کچھ ذہنوں میں صرف شک اور منفی سوچ کی فصل ہی اگتی ہے۔
کچھ آنکھیں صرف مفاد دیکھتی ہیں، اور کچھ رشتے صرف مطلب پر قائم ہوتے ہیں۔
تو اگر تمہیں بدلے میں وہ نہ ملا جس کے تم حق دار تھے،
تو خود کو الزام نہ دو۔
نہ ہی اس نیکی پر پچھتاؤ جو تم نے کی تھی۔
کیونکہ تم نے اپنا فرض ادا کیا۔
تم نے اپنی ذات کا بہتر چہرہ دکھایا۔
اور یہی کافی ہے۔
دنیا میں بہت سی زمینیں ہیں،
کچھ واقعی کاشت کے قابل ہیں۔
ان کی تلاش جاری رکھو۔
وہ دل، وہ رشتے، وہ مقام جہاں تمہاری نیکی رنگ لائے گی۔
تم کسان ہو،
زمین کی نہیں نیت کی پہچان کرو۔
