63

اخلاق یا فن؟ ایک گہرا سوال تحریر: رخسانہ سحر

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں اکثر انسانوں کے چہرے پر مسکراہٹ اور زبان پر شیریں الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بظاہر یہ اخلاق کی علامت سمجھی جاتی ہے، لیکن اگر اس مسکراہٹ کے پیچھے دل کی سچائی نہ ہو، اور اس شیریں گفتگو کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد چھپا ہو، تو پھر یہ اخلاق نہیں بلکہ صرف ایک فن ہے ایسا فن جو وقت کے ساتھ سیکھا جاتا ہے، اپنایا جاتا ہے، اور اکثر اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اخلاق، درحقیقت، صرف ظاہری رویے کا نام نہیں۔ اخلاق کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو کردار کے خالص ہونے سے جنم لیتی ہے۔ کردار کا اخلاص ہی اصل اخلاق کی بنیاد ہے۔ اگر کوئی شخص دل سے مخلص، نیت سے صاف اور عمل سے سچا ہے، تو اس کے اخلاق میں فطری نرمی، سچائی، برداشت، اور خلوص نمایاں ہوں گے چاہے اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ نہ بھی ہو، یا وہ خوشامدانہ جملے نہ بولے۔
آج کے دور میں ہم نے اخلاق کو صرف “اٹیٹیوڈ” (attitude) بنا کر رکھ دیا ہے۔ “پیشہ ورانہ اخلاقیات” (professional ethics) کے نام پر لوگ سیکھتے ہیں کہ کس طرح بات کرنی ہے، کس موقع پر مسکرانا ہے، کس وقت نرمی اختیار کرنی ہے۔ لیکن جب یہ سب کچھ صرف فن کا درجہ اختیار کر لے، اور اندر سے انسان کھوکھلا ہو، تو پھر ساری نرمی، ساری شائستگی، محض ایک اداکاری بن جاتی ہے جسے ہم خوش فہمی میں اخلاق سمجھ بیٹھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ہم کسی شخص سے مل کر بہت متاثر ہوتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ جب اس کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے، تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنا “اچھا” دکھنے والا انسان اندر سے اتنا مختلف کیوں نکلا؟ یہ تضاد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اخلاق کردار سے نہیں بلکہ فن سے جنم لے۔
اصل اخلاق وہی ہے جو چھپے ہوئے کاموں میں بھی ظاہر ہو، جو کمزوروں کے ساتھ برتاؤ میں بھی واضح ہو، جو بغیر کسی غرض کے اپنایا گیا ہو، اور جو محض ظاہری تاثر کے بجائے دل کی گہرائی سے اٹھا ہو۔
لہٰذا ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم جو اخلاق اپنائے ہوئے ہیں، وہ سیکھا ہوا فن ہے یا کردار کی پرچھائیں؟ کیا ہماری مسکراہٹ صرف تعلقات بنانے کا ہنر ہے، یا واقعی ایک خیرخواہ دل کی عکاس؟ کیا ہماری نرمی فقط الفاظ تک محدود ہے، یا رویے اور فیصلوں میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے؟
کیونکہ اگر اخلاق کا تعلق صرف چہرے اور زبان سے رہا، تو یہ فن تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ جو انسان کو انسان بناتا ہے وہ اخلاق نہیں۔
آج “پرسنل ڈیویلپمنٹ” اور “کمیونیکیشن اسکلز” کے نام پر ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح بات کریں، کب مسکرائیں، کب خاموش رہیں، کس لفظ کو کتنے زاویے سے ادا کریں تاکہ سامع متاثر ہو جائے۔ ان سب چیزوں کو اب ہم “اخلاق” کا نام دے بیٹھے ہیں۔
ایسا نہیں کہ گفتگو کا سلیقہ اور نرمی بری بات ہے، مگر یہ اخلاق تب بنتی ہے جب دل صاف ہو، نیت سچی ہو، اور تعلق بے غرض ہو۔ اگر نرمی محض ایک ماسک ہے تو یہ سلیقہ نہیں، سیاست ہے — اور سیاست اخلاق کی ضد ہوتی ہے۔
معاشرتی رویوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ
دفتر میں باس کے ساتھ نرم لہجہ، خوش مزاجی، حتیٰ کہ چاپلوسی تک اخلاقیات سمجھی جاتی ہے، مگر جونہی وہی باس کمرے سے نکلتا ہے، رویہ اور الفاظ بدل جاتے ہیں۔
مذہبی و سماجی تقریبات میں لوگ بڑے مہذب انداز میں ملتے ہیں، مصافحے کرتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں، مگر دلوں میں رنجشیں، حسد، اور مفادات کی دیواریں جمی ہوتی ہیں۔
رشتے نبھانے کے بجائے چالاکی سے چلاتے ہیں، تاکہ وقت پڑنے پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔
ایسے تمام رویے بتاتے ہیں کہ اخلاق کا اصل جوہر ختم ہو رہا ہے، اور اس کی جگہ “فنِ تعلقات” لے رہا ہے۔
اخلاق کا سرچشمہ کردار ہے، اور کردار وہ چیز ہے جو تنہائی میں بھی انسان کو وہی بنائے رکھتی ہے جو وہ مجمع میں ہوتا ہے۔ وہ ماں جو رات کے وقت بچے کے ساتھ محبت سے جاگتی ہے، وہ باپ جو چپ چاپ مزدوری کر کے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھاتا ہے، وہ استاد جو بغیر کسی لالچ کے اپنے شاگردوں کی تربیت کرتا ہے یہ وہ کردار ہیں جو اخلاق کی اصل تصویر ہیں۔
یہ لوگ اکثر چمکتے نہیں، اسٹیج پر نہیں ہوتے، ان کے جملے وائرل نہیں ہوتے، ان کی مسکراہٹوں پر کیمرے نہیں ہوتے لیکن یہ ہی اصل اخلاق کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا عمل، ان کی نیت، اور ان کا کردار ایک ہوتا ہے۔
اگر ہم واقعی ایک مہذب، مخلص اور پرامن معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اخلاق کو فن نہیں، فطرت بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی تربیت ایسے کرنی ہوگی کہ مسکراہٹ صرف چہرے پر نہ ہو، بلکہ دل سے نکلے۔ الفاظ صرف شیریں نہ ہوں، بلکہ سچے بھی ہوں۔ تعلق صرف فائدے کا نہ ہو، بلکہ خلوص کا ہو۔
اخلاق کی بحالی کا واحد راستہ کردار کی اصلاح ہے۔ جب کردار میں سچائی آئے گی تو اخلاق خود بخود ظاہر ہوگا نہ اسے سیکھنے کی ضرورت پڑے گی، نہ سکھانے کی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں