75

کیا تعلیم اب ہاتھ پھیلانا سکھا رہی ہے؟ تحریر: رخسانہ سحر

ایک زمانہ تھا جب فقیری ایک خاص پہچان رکھتی تھی میلے کپڑے، کمزور جسم، اور آنکھوں میں امید کی ایک مدھم سی چمک۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے۔ اب مانگنے والے ہاتھ وہ ہیں جنہوں نے ابھی چند لمحے پہلے یونیورسٹی کی کسی کلاس میں کوئی لیکچر سنا ہوتا ہے، جن کے کندھوں پر کتابوں سے بھرا ہوا بیگ ہوتا ہے، اور جن کی آنکھوں میں غربت سے زیادہ بے بسی بولتی ہے۔
اب فقیر صرف وہ نہیں جو گلی میں ہاتھ پھیلا کر “اللہ کے نام پر کچھ دے دو” کہتا ہے، اب فقیر وہ بھی ہے جو کہتا ہے “ہم مانگنے والے نہیں، بس حالات مجبور کر رہے ہیں۔”
اب سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم ایسے ہاتھ پیدا کر رہی ہے جو علم حاصل کرنے کے بعد بھی سوالی بن جاتے ہیں؟
ہم ایک ایسے نظامِ تعلیم میں سانس لے رہے ہیں جہاں ڈگریاں تو ہیں، مگر نوکریاں نہیں۔ خواب تو ہیں، مگر وسائل نہیں۔ محنت تو ہے، مگر اس کا صلہ نہیں۔ اور جب ایک طالب علم، جو اپنی ماں کی چُنی ہوئی چادر اور باپ کی مزدوری کے پیسوں سے تعلیم حاصل کر رہا ہو، اپنی فیس یا روزمرہ اخراجات پورے نہ کر سکے، تو وہ کہاں جائے؟
اب المیہ صرف اتنا نہیں کہ لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہوئے مانگنے پر مجبور ہیں، بلکہ ایک اور تلخ حقیقت بھی جنم لے چکی ہے وہ لڑکیاں جو یونیورسٹی آتی ہیں، قیمتی موبائل ہاتھ میں، میک اپ سے آراستہ، مہنگے لباس میں ملبوس، اور شام کو مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر ان کے ساتھ چلی جاتی ہیں جن سے انہیں علم نہیں، صرف وقتی آسائش ملتی ہے۔
یہ سوال اب صرف معیشت یا تعلیم کا نہیں، کردار کا بھی ہے۔
تعلیم کا مقصد شعور دینا، خودداری پیدا کرنا، اور انسان کو اپنی ذات کا احترام سکھانا تھا۔ مگر آج کے تعلیمی رجحانات کہیں اور جا رہے ہیں:
لڑکے خودداری کھو بیٹھے اور ہاتھ پھیلانے کو مجبوری سمجھ کر اپناتے جا رہے ہیں۔
لڑکیاں عزتِ نفس کا سودا کر کے دنیاوی فائدے کو “سمارٹ چوائس” سمجھنے لگی ہیں۔
یہ سب کچھ صرف غربت یا مجبوری کا نتیجہ نہیں، یہ اخلاقی افلاس کا بھی عکاس ہے۔
جب نظامِ تعلیم صرف نمبر، گریڈ، یا ڈگری تک محدود ہو جائے، جب اساتذہ صرف کورس مکمل کروانے والے اور والدین صرف رزلٹ دیکھنے والے بن جائیں، تو نوجوان بھٹکتے ہیں۔
ایسے میں:
کوئی بھیک کو ذریعہ بنا لیتا ہے،
اور کوئی “رشتے” کو سہارا۔
ہمیں تعلیم کو محض ڈگریوں سے نکال کر کردار سازی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
معاشی انصاف کے ساتھ ساتھ، اخلاقی تربیت کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔
یونیورسٹیز کو “اسکل بیسڈ ایجوکیشن” کے ساتھ “ویلیو بیسڈ ایجوکیشن” بھی دینا ہوگی۔
یہ وقت سوچنے کا ہے
کہ ہم صرف تعلیمی ادارے کھول رہے ہیں، یا کردار پیدا کر رہے ہیں؟
ہم اپنے نوجوانوں کو شعور دے رہے ہیں، یا صرف خواب؟
اور اگر یہی روش رہی، تو آنے والا وقت نہ صرف تعلیمی زوال کا، بلکہ معاشرتی انہدام کا بھی سبب بنے گا۔
آج ہم جس تعلیمی نظام پر فخر کرتے ہیں، کیا وہ اس لائق ہے کہ ایک باعزت نوجوان کو سڑک پر لا کر کھڑا کر دے؟ اگر علم انسان کو خوددار نہیں بنا رہا، اگر وہ شعور دینے کے بجائے صرف سسٹم کی غلامی سکھا رہا ہے، تو ہمیں رک کر سوچنا ہوگا:
ہم کس سمت جا رہے ہیں؟
حل کہاں ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اسکالرشپس اور فنانشل سپورٹ پروگرامز کو بڑھائے۔
یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ صرف تعلیم نہ دیں، بلکہ ہنر سکھائیں، تاکہ طالب علم فارغ التحصیل ہو کر خود کفیل بنے، محتاج نہیں۔
معاشرے کو چاہیے کہ وہ مانگنے والے طالب علم کو صرف ایک سوالی نہ سمجھے، بلکہ اس کی پشت پر کھڑی محرومیوں کو دیکھے۔
یہ سچ ہے کہ کچھ لوگ اس نظام کا غلط فائدہ بھی اٹھاتے ہیں نقلی یونیفارم پہن کر، جعلی آئی ڈی کارڈ کے ساتھ بھیک مانگنا ایک “کاروبار” بن چکا ہے۔ مگر اس سچ کی آڑ میں ہمیں اُن طالب علموں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو واقعی مجبوری کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
آج اگر ہم نے ان خوددار مگر مجبور ہاتھوں کو نظرانداز کیا، تو کل وہی ہاتھ یا تو اسلحہ اٹھا لیں گے، یا خودکشی کا سہارا۔
وقت ہے کہ ہم صرف باتیں نہ کریں، کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں